مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ تین دن پہلے دیوان سلطانی عمان کی طرف سے بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایرانی صدر ابرہیم رئیسی کی دعوت پر سلطان ہیثم بن طارق تہران کا دو دوزہ دورہ کریں گے جس کا مقصد دونوں ملکوں کے باہمی روابط کا استحکام اور خطے میں صلح کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔
اس سفر میں سلطان عمان کے ساتھ اعلی حکام بھی ہوں گے جن میں وزیراعظم کے دفاعی امور کے معاون شہاب بن طارق آل سعید، وزیر دربار خالد بن ہلال البوسعیدی، میجر جنرل سلطان بن محمد النعمانی، وزیرخارجہ بدر بن حمد البوسعیدی، وزیر خزانہ سلطان بن سالم الحبسی، سرمایہ کاری کے سربراہ عبدالسلام بن محمد المرشدی، وزیر معدنیات و تجارت قیس بن محمد الیوسف، وزیر توانائی سالم بن ناصر العوفی اور عمانی افواج کی مشترکہ کمیٹی کے سربراہ ایڈمرل عبداللہ بن خمیس الرئیسی اور ایران میں عمان کے سفیر ابراہیم بن احمد المعینی شامل ہیں۔
خلیج فارس کے کنارے واقع ممالک میں سے ایران کے عمان کے ساتھ تعلقات سب سے زیادہ اچھے ہیں۔ دونوں ملکوں آبنائے ہرمز پر کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور مذہبی تعلقات بھی رکھتے ہیں۔ انقلاب اسلامی سے پہلے اور بعد میں ایران اور عمان کے درمیان کوئی کشیدگی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ انقلاب سے پہلے جنگ ظفار اور علیحدگی پسندوں کے خلاف جنگ میں ایرانی افواج نے سلطان عمان کی مدد کرنے ملک کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنگ ظفار میں ایرانی فورسز کی کاروائیوں کے نتیجے میں سلطان عمان کی سلطنت کو استحکام ملا تھا۔
ایران میں اسلامی نظام نافذ ہونے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں تین دور آئے ہیں اور استحکام و پیشرفت دیکھی گئی ہے۔ ایران اور عمان ان ممالک میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے مشکلات ادوار میں مخصوصا دنیا مختلف بلاکوں میں تقسیم ہورہی تھی، دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات کو محفوظ رکھا۔ دونوں نے ہمسایگی کے علاوہ دینی اور اعتقادی تعلقات کو بھی ہمیشہ اولویت دی۔ ایران اور عمان نے خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر آپس کے تعلقات کو متاثر کرنے کے بجائے ہمیشہ روابط کو مستحکم کیا ہے۔
خلیج فارس کے کنارے واقع ممالک میں سے عمان واحد ملک ہے جس نے مختلف اوقات میں ایران کے ساتھ اپنے روابط کو کبھی غیر مستحکم نہیں کیا۔
عمانی حکمران خطے اور بین الاقوامی سطح خاموش ثالث کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ عمان کے بادشاہ کے ایران کے ساتھ روابط مثالی ہیں۔ آبنائے ہرمز کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو بین الاقوامی سطح پر اہمیت دی جاتی ہے۔ حالیہ سالوں میں دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی معاملات میں بھی خاصی گرمجوشی دیکھی گئی ہے۔ سلطان عمان خطے اور عالمی معاملات پر غیر جانبدار کی حیثیت سے معروف ہیں۔ حساس خطے میں ہونے کے باوجود عمان نے اپنی غیرجانبدارانہ حیثیت پر آنچ آنے نہیں دیا۔
عمان نے ہی ثالثی کا کردار نبھاتے ہوئے ایران میں قید غیر ملکی قیدیوں کی رہائی میں حصہ ڈالا ہے۔ برطانوی ملاحوں اور امریکی کوہ پیماوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں میں قید ایرانی قیدیوں کی رہائی میں عمان کا کردار رہا ہے۔ حالیہ سالوں میں عمان نے ایران اور مغربی ممالک کے درمیان بھی ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایران اور بیلجئیم کے درمیان عمان کی ثالثی میں ہی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہوا ہے۔ آسٹریا میں ایرانی سفارتکار اسد اللہ اسدی جو بیلجئم میں 20 سال قید کی سزا کاٹ رہے، کو رہا کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
الاہرام سٹڈی سنٹر کے تجزیہ کار بشیر عبدالفتاح کے مطابق جب مصر نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے تو عمان واحد ملک ہے جس نے مصر سے سفارتی تعلقات باقی رکھے۔ عمان نے ایران کے امریکہ سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سلطان عمان کا دورہ قاہرہ بھی ایران اور مصر کے درمیان تعلقات کی بہتری کے سلسلے میں ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ مخصوصا جب قاہرہ کے بعد سلطان ہیثم تہران کا دورہ کررہے ہیں۔
انہوں کہا کہ چین کی ثالثی میں ایران اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کا آغاز ہوچکا ہے۔ خطے کے ممالک کو اس حقیقت کو ادراک ہوگیا ہے کہ باہمی تنازعات کے نتیجے میں بیرونی ممالک ہی فائدہ اٹھارہے ہیں۔
سلطان عمان کے دورہ تہران کے بارے میں ایک سوال مبصرین کے ذہن میں ابھر رہا ہے کہ کیا سلطان عمان ایرانی جوہری معاملے پر بھی گفتگو کریں گے یا نہیں؟ کیا امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کی طرف جوہری معاہدے کے بارے میں کوئی پیغام ایرانی اعلی حکام تک پہنچایا جائے گا یا نہیں؟ کیا سلطان ہیثم بن طارق ایران اور امریکہ کے درمیان بھی ثالثی کریں گے؟
جو بات یقینی طور کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان دورہ انتہائی اہم ہے کیونکہ چھوٹے موضوعات پر مذاکرات کے لئے نچلی سطح پر بھی سفارتکاری کے طریقے موجود تھے۔ سلطان عمان اپنے پاس موجود پوری طاقت استعمال کریں گے۔ ایران اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد ایران اور مصر کے درمیان بھی روابط بحال ہونے کی خبریں زیرگردش ہیں۔
عمان کی ایک مخصوص پالیسی ہے جس کے تحت وہ غیر سنجیدہ اقدامات سے پرہیز کرتا ہے۔ عمان ثالثی کا عمل منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے خاموشی سے کام کرتا ہے۔ بین الاقوامی امور میں عمان کا کردار ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مصر کی نگاہ میں عمان کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عمان تہران اور قاہرہ کے درمیان روابط بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
تہران کے دورے میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط ہوں گے جو دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے کی دلیل ہے۔ اس سے ایران اور دوسرے ملکوں کے تعلقات بحال ہونے میں عمان کے کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سلطان ہیثم نے سلطان قابوس کی جگہ ملک کی قیادت سنبھالی ہے اور صلح اور ثالثی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پوری طاقت سے کردار ادا کریں گے۔ یہی خصوصیت سابق سربراہ سلطان قابوس کے اندر بھی تھی۔ خطے میں مستقل اور پائدار امن کا قیام اور کشیدگی میں کمی صرف اور صرف خطے کے ممالک کے تعلقات میں موجود دراڑ کو ختم کرنے سے ممکن ہے۔
آپ کا تبصرہ